اس ناول میں ڈپٹی نزیر احمد نے دہلی کے
شریف خاندانوں کی معاشرت کا ہو بہو نقشہ کھینچا ہے اور دو بہنوں اکبری اور اصغری کیسی
ہیں ایک انپڑھ جاہل پھوہڑ اور بد مزاج دوسری تعلیم یافتہ مہذب با اخلاق دانشمند
معاملہ فہم اور تمیز دار ہے اس قصّے سے ان کا مقصد تعلیم و تربیت کا احساس دلانا
ہے کہ اسی کے زریعے زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے
مولوی محمّد فاضل کے گھر کی ایک پرانی ملازمہ ما ما عظمت نے اپنی مکاری چالاکی اور لالچ سے گھر کو قرضے کے بوجھ میں جکڑ دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ گھر کا سودا ادھر آتا تھا بے ایمان اس گھر کے حساب میں اپنی بیٹی اور چند دوسرے لوگوں کا بھی گھر چلایا کرتی تھی مولوی صاحب جب آتے تو بغیر حساب رقم ما ما کے حوالے کر دیتے تو وہ کسی کو کم دیتی اور ہر حساب میں ڈنڈی مارتی تھی وہ مولوی صاحب کے اعتماد کا خون کرتی رہتی جب تک کہ اس گھر میں تمیز دار بہو اصغری نہ آگئی .
اصغری چونکہ پڑھی لکھی سمجھداراور معاملہ فہم لڑکی تھی لہٰذا اس نے ما ما عظمت کے مشکوک اور بے اعتبار کردار کو جان لیا اور اسے بے نقاب کرنے لئے موقع کی تلاش میں رہتی مولوی صاحب نے جب رقم ما ما عظمت کے حوالے کرنا چاہی تو اصغری نے کہا کہ جتنے قرض خواہ ہیں انھیں روبرو بلا کر حساب کتاب سے رقم ادا کی جائے ما ما عظمت نے کئی بہابے تراشنے مگر اصغری نے دانشمندی سے ہر بہانے کا توڑ کیا اور ما ما کو سب قرض خواؤں کو بلانا ہی پڑا .سب سے پہلے حلوائی آیا اور قرض کے تیس روپے بتاے معلوم کرنے پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ دس سیر شکر شب برات پر اور چار سیر بالو شاہی مولود شریف کے واسطے جبکہ ان چیزوں کو نہیں منگایا گیا تھا ما ما عظمت بہت ستپتائی اصل قرض صرف چھ سات روپے نکلے اسی طرح سبزی فروش قصائی کے حساب میں بھی ما ما کی نیت کا فتور نکلا اب تمام گھر والوں کی آنکھیں کھل گئیں ما ما عظمت پر خوب لعنت ملامت برستی رہی اگلے روز بڑے قرض خواؤں کی باری آنی تھی مگر ما ما پہلی ہی رات کو بزاز اور ھزاری مل کے گھر گئی ان دونوں کو سونے کی چوڑیاں اور زیور دیے کہ حساب کے وقت نکال کر واجبی سا قرضہ بتایا جائے مگر مولوی صاحب کے ملازم نے اس کو دونوں کے گھر جاتے دیکھا اور چپکے سے مولوی صاحب کو بتایا اور پھر یہ خبر اصغری کو بھی مل گئ اگلے روز جب دونوں قرض خواہ مولوی صاحب ک مکان پہنچے اور حساب کتاب ہونے لگا تو ما ما عظمت بہت بڑھ چڑھ کر بول رہی تھی اس کی چرب زبانی دیکھ کر دونوں نے ما ما کا دیا ہوا زیور اس کی طرف پھینک دیا اور کھا اپنا سامان رکھ لو یہ ہماری اصل رقم سے کہیں کم قیمت کا ہے ایک ہی لمحے میں بڑھیا کی بولتی بند ہو گئ اور ان دونوں کے قرضے کے عیوض اس کو اپنا مکان دینا پڑا اس بے ایمانی اور مکاری کے نتجے میں اسے انتاہی بے آبرو ہو کر گھر سے نکلنا پڑا .
لالچ حرص و هوس اور مکاری کا انجام بالآخر بھیانک ہوتا ہے لہٰذا اس طرح کے غلیظ اور بری عادت سے دور رہا جائے اس کا دوسرا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ خواتین کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے تاکہ معاملات کو سمجھ سکیں کبھی کسی پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ نہیں کرنا چاہیے اور اپنی سمجھ اور زہن کو استمال کرنا چاہیے
Sahi
ReplyDelete