Wednesday, July 13, 2022

خود شناسی/self -efficacy


 

self -efficacy/خود شناسی  

تحریر۔ کرن احمد( اٹک )

self -efficacy بھی کہتے ہیں ۔ (seif -efficacy basically
 someone believes it he or she has ability to do that particular taste ) خود شناسی کو خود احتسابی بھی کہا جا سکتا ہے ۔کسی بھی انسان کی اپنی قابلیت پر ایمان کی حد تک جو یقین کی کیفیت ہے جو انسان کی اپنی ذات پر ایمان،اعتماد اور یقین ہے اسکو خود شناسی کہہ سکتے ہیں ۔ حدیث مبارکہ ہے کہ: "جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ۔" ایک اور جگہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ مجھے اشیا کی ہیت نہیں ان کی فطرت کا علم عطا فرما۔" خود شناسی ہی آپ کو اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اور کائنات کی ہر چیز سے شناسا کرتی ہے ۔اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو لگن اور محنت سے کامیابی تک لانا بھی خود شناسی کی ایک صورت ہے ۔خود شناسی دو طرح کی ہوتی ہے ۔ 1) خود شناسی خود پر کامل یقین کا ہونا ۔اس کی مثال ایک شخص خود کو کامیاب کرنے اور کوئی مقام پانے کے لیے جستجو کرتا ہے اور آخر کار اس کی مستقل لگن اور محنت سے وہ یہ مقام حاصل کر لیتا ہے ۔ 2) خود شناسی کی کمی یا ہار جانے کا ڈر انسان کو محنت اور آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے اور کوشش کرنے سے پہلے ہی وہ یہ سمجھ کر خود کو ناکام کر لیتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا اور اس کا خود کی ناکامی پر کامل یقین آخر کار اسے ناکامی سے دوچار کر دیتا ہے ۔اگر مجھے یہ یقین ہے کہ میں کر سکتی ہوں تو یقیناً میں کرلوں گی۔ اور اگر شروع میں میرے پاس مشکلات بہت بھی ہوں لیکن میرا ارادہ ، پختہ یقین اور میرا اپنا آپ مجھے اس مقام تک ضرور لے آئے گا جہاں میں جانا چاہتی ہوں ۔تمام معاملات میں خود شناسی کا ہونا بہت ضروری ہے ۔چاہیے آپ پڑھتے یا پڑھاتے ہوں یا اس کے علاؤہ آپ کا تعلق کسی اور شعبے سے ہو آپ کی مستقل مزاجی اور آپ کے مضبوط ارادے ہی خود شناسی ہے ۔ خود شناسی کو جاننے کے چار آسان طریقے ہیں ۔ 1)سب سے پہلے آپ اس بات کو تسلیم کریں کہ ہر شخص اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ جیسے فنگر پرنٹ ،آواز ،شکل وصورت اور قد وغیرہ ۔اس کے علاؤہ قابلیت اور ذہانت بھی ۔یہاں پر آپ ان تمام چیزوں کو قبول کر چکے ہیں تو آپ لوگوں کی نقل کرنا چھوڑ دیں گے ۔ 2)اپنی خوبیوں اور خامیوں کو جانے۔کوئی بھی شخص اپنی ذات میں مکمل کبھی نہیں ہوتا ۔جب آپ اپنے اندر ان باتوں کو جان لیتے ہیں تو آپ کے لئے آگے بڑھنا آسان ہو جاتا ہے ۔اپنی خوبیوں کو لے کر آگے محنت کریں اور اپنی خامیوں کو قبول کریں اور بہترین عمل تو یہ ہے کہ آپ اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنائیں ۔ 3)اپنے اندر کی کیفیات سے آگاہ ہونا۔حسد ،غصہ ،مایوسی آپ کے اندر ان باتوں کی کیا وجہ ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے ۔کون سی ایسی باتیں ہیں جو کہ آپ کے جذبات کو تحریک دیتں ہیں اور آپ کے اندر حد سے زیادہ کسی بھی جذبے کو اجاگر کرتیں ہیں ۔ان پر کنٹرول پانا بہت ضروری ہے ۔ 4)اپنے اصولوں کا تعین کرنا ۔آپ کو اپنے قول و قرار میں پختہ ہونا چاہیے ۔آپ ہمیشہ وہ بولیں جو آپ کر سکتے ہیں اور ایسی باتوں سے گریز کریں جن پر آپ قائم نہیں رہ سکتے ۔ خود شناسی کو بڑھانے کے لئے شاباش معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔لیکن غصہ ،طنز،حسد آپ کی خود شناسی میں کمی کا سکتی ہے ۔آپ کو اپنے اندر کی طاقت ،شخصیت ،اقرار ،عادات ، احساسات اور کمزوریوں کو جاننا بھی بےحد ضروری ہے ۔خود سے آگاہی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وہ کیا ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں اور آگے انھوں نے کیا کرنا ہے ۔خود شناسی کو جانے ۔آپ جتنا اپنے آپ کو جانتے ہیں اتنا کوئی بھی آپ کو نہیں جان سکتا ۔

Also called self-efficacy. (seif-efficacy basically
  (someone believes it he or she has ability to do that particular taste) Self-awareness can also be called self-accountability. It is the extent of faith in one's own ability, which is the state of belief, which is faith, trust in one's own self. And surely you can call it self-realization. There is a blessed hadith that says: "He who knows his own self after research has known his Lord." In another place, Prophet Muhammad (peace and blessings of Allah be upon him) said: "O Allah, grant me the knowledge of the nature of things, not the will of them." Self-knowledge makes you familiar with Allah Almighty and everything in the universe. Bringing your shortcomings and shortcomings to success with dedication and hard work is also a form of self-knowledge. There are two types of self-knowledge. 1) Self-awareness Having complete faith in oneself. An example of this is a person who strives to succeed and find a position and finally with his constant dedication and hard work, he achieves this position. 2) Lack of self-awareness or fear of failure stops a person from working hard and moving forward and before even trying, he fails himself by thinking that he cannot do anything and his own failure. Perfect belief eventually leads to failure. If I believe I can do it, I will. And even if I have a lot of difficulties in the beginning, but my will, strong belief and my own self will surely bring me to the place where I want to go. Self-awareness is very important in all matters. Whether you study or teach. Whether or not you belong to any other field, your consistency and your strong intentions are self-realization. There are four simple ways to know Self-realization. 1) First of all you should recognize that each person has his own identity. Like fingerprint, voice, appearance and height etc. In addition to this ability and intelligence too. Here you have accepted all these things then you will stop imitating people. 2) Know your strengths and weaknesses. No one is ever perfect in himself. When you know these things within yourself, it becomes easier for you to move forward. Take your strengths and work hard. Accept your flaws and the best course of action is to make your weaknesses your strengths. 3) To be aware of the conditions inside you. It is very important to know what is the reason for these things inside you. Most of them highlight any emotion. It is very important to get control over them. 4) Determining your principles. You should be firm in your words and decisions. You should always say what you can do and avoid things that you cannot stick to. Shabash can help to increase self-awareness. But anger, sarcasm, jealousy can reduce your self-awareness. It is also very important to know your inner strength, personality, confession, habits, feelings and weaknesses. Self-aware people know who they are and what they want to do and what they need to do next. Know Self-Awareness. No one can know you as well as you know yourself.

Tuesday, July 5, 2022

قربانی کا مقصد

 

قربانی

تحریر۔ کرن احمد (اٹک)

 قصہ کچھ عجیب ہے کہ ایک شخص کو دعا مانگتے ساٹھ سال کا عرصہ بیت جاتا ہے
دعا کی جاتی ہے کہ اے میرے پیارے رب مجھے نیک اور صالحہ اولاد عطا کی جائے ۔اور دعا کی قبولیت ہوتی ہے چوراسی سال کی عمر میں۔شدت سے مانگی گئی بڑھاپے کی محبوب اولاد ۔اور پھر حکم ربی ہوتا کہ اے میرے نبی اسے میری راہ میں قربان کر دو ۔ایک طرف محبوب رب کی آزمائش اور دوسری طرف وہ اولاد جسے مانگتے ہوئے زبان کپکپانے لگی۔بحکم خداوند ی کو پورا کرنے کے لئے حضرت ابرہیم علیہ السلام نے فلسطین سے مکہ تک کا گھٹن اور مشکل سفر طے کیا۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منی کی وادی میں لائے ۔اور بیٹے کو کہا کہ آپ کو اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا ہے ۔اور بیٹا یہ جواب دیتا ہے کہ جو آپ کے رب کی رضاھے وہ ہی میری رضا۔دونوں کے دل میں اپنے حقیقی مالک کے لئے تڑپ اور عشق تھا جسکا ثبوت وہ اپنے عمل سے دینے جا رہے تھے ۔حضرت ابرہیم علیہ السلام نے چھری بیٹے کی گردن پر رکھی اور تاریخی الفاظ کہے جن کی گردش آج بھی ہوا کی لہروں میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے ۔حضرت ابرہیم علیہ السلام نے نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی اور فرمایا اے میرے رب بیشک تیری آزمائش کڑی ہے لیکن یہ مت سمجھنا کہ اسماعیل کی محبت تیری محبت پر غالب آ گئی ہے۔ میرے رب مجھ سے راضی رہنا یہ کہتےساتھ ہی چھری چلا دی۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اللّٰہ پاک نے چھترا بھیج دیا اور یوں چھترے کی قربانی ہو گئی۔یہاں حضرت ابرہیم علیہ السلام امتحان میں کامیاب ہو گئے اور اپنے عمل سے سے ثابت کر دیا کہ محبوب کی آزمائش ہمیشہ سخت ہوا کرتی ہے ۔قربانی عربی زبان کے لفظ قربان سے نکلا ہے ۔قربان کہتے ہیں ہر وہ عمل جو اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے ۔ویسے تو ساری عبادات اللّہ پاک کی رضا اور خوشنودی کے لئے کی جاتی ہیں لیکن اس عبادت میں انسان کی عقل حکمت اور مصلحت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔قربانی دس گیارہ اور بارہ ذالحجہ کو ہی کی جا سکتی ہے ۔اس کے بعد اگر کوئی قربانی کرے گا تو وہ بھی صدقات میں شامل ہو گی اسے قربانی نہیں کہا جا سکتا ۔ہر سال لوگ اپنی استطاعت کے مطابق مختلف جانور ذبح کرکے سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔قربانی کے جانوروں میں اونٹ، گائے، بیل،بکرا،بکری ،چھترا اور دنبہ وغیرہ شامل ہیں ۔واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں قربانی کے جانور کی قربانی درست ہونے کے لئے ان کے لئے ایک خاص عمر تعین ہے۔ یعنی بکرا ،بکری کی عمر ایک سال ہو ۔اونٹ کی عمر پانچ سال ہو ۔گائے ،بیل اور بھینس کی عمر دو سال ہو ۔البتہ دنبہ یا بھیڑ ایک سال سے کم ہو اور اتنا فربہ ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔تمام جانوروں کی عمریں اس سے کم نہ ہوں ورنہ قربانی جائز نہیں ۔زیادہ عمر ہوتو بہتر ہے ۔قربانی کا عمل اتنا زبردست ہے کہ جو کرے وہ ہی پائے ۔قربانی کی ایک فضیلت تو یہ ہے کہ جیسے ہی قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرے گا اللّٰہ پاک قربانی کرنے والے شخص کی بخشش فرما دے گا۔افضل عمل ہے کہ جس نے قربانی کی نیت کی ہو ذالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ تراشے ۔بلکہ قربانی ہونے کے بعد کاٹے جائیں تاکہ ان بالوں اور ناخنوں کی بخشش ہو سکے ۔اگر کوئی شخص قربانی کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ یہ عمل کرے تو اسے قائم مقام قربانی کا اجر ملے گا۔یہاں پر امیر غریب دونوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔بہتر تو یہ ہے کہ قربانی کرنے والا شخص جانور کی قربانی ہوتے وقت اسکے پاس موجود ہو ۔اگر نہیں بھی ہوتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن سامنے کے اجر اور بخششِ کا معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔قربانی کے لئے جانور صحت مند ہونا چاہیے اور اعضاء کا پورا ہونا بھی ضروری ہے ۔کہا یہ جاتا ہے کہ اگر قربانی کے جانور کے کان چاول کے دانے کے برابر کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ۔جانور بے عیب ہونا ضروری ہے ۔قربانی کے جانور کے جسم پر جتنے بال ہوں گے ہر بال کے بدلے ایک نیکی عطا کی جائے گی ۔ حدیث میں ہے کہ کھاؤ بھی اور جمع بھی کر کے رکھو ۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ قربانی کا سارا گوشت خود رکھ لیا جائے ۔ غریبوں ، مسکینوں اور یتیموں کو بالکل نہ دیا جائے ۔اس سے قربانی کا اصل مقصد پورا نہیں ہوتا ۔قربانی کا گوشت کوئی عام گوشت نہیں بلکہ خاص الخاص ہے ۔دنیا میں جتنی بھی کھانے کی اشیاء ہیں قربانی کا گوشت سب سے اعلیٰ غذا ہے ۔

A BABY GIRL'S DIET

                 A baby girl’s diet is important for her growth and development. During the first six months, breast milk or infant formula...